فلم ریویو “جوان” | شاہ رخ خان کی کلچرل پالیٹیکس

0
172

گزشتہ چند سالوں میں نیٹ فلکس اور دیگر اسٹریمنگ سروسز نے فلم سازی کے فارمیٹ اور اسٹائل کو بہت تبدیل کر دیا ہے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا بھر کے لوگوں کے احساست و نظریات میں بدلاؤ آیا وہیں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے طور طریقے اوربزنس ماڈل پر بھی اثر پڑا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ بالی ووڈ کے روایتی سرمایہ کار دنیا کی اس بدلتی جمالیات سے ابھی تک بے پرواہ ہیں۔ شاہ رخ خان کی تازہ ترین ‘ہٹ’ فلم ”جوان“ کودیکھ کے اس بات کا اور زیادہ یقین ہونے لگتا ہے۔

کیا ایک کمرشل فلم سے سوشل تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے؟

خبروں کے مطابق شاہ رخ خان کی اس فلم نے باکس آفس پر نہ صرف ریکارڈ بزنس کیا ہے بلکہ یہ بالی ووڈ کو گزشتہ دو تین سالوں کے خسارے سے بھی نکالنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ لیکن جہاں تک فلم کی کہانی، اداکاری یا سیاسی حثیت کا تعلق ہے، اس فلم میں ایسی کوئی نئی بات نہیں ہے جو اسے گزشتہ فلموں سے مختلف بناتی ہو۔

  ‘میگا ہٹ ‘جوان‘ اس بات کا بلند اعلان ہے کہ ‘بالی ووڈ’ جس حیثیت اور جس وضع کی فلمیں بنانے کے لیے مشہور ہے اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا جائے گا، یعنی مصالحہ فلمیں یا فارمولہ فلمیں ۔ سو اگر آپ کو سال 2023 میں نئے دور کے بدلتے موضوعات سے دلچسپی ہے یا یوں کہیے کہ اگر آپ کو مصالحوں سے کوئی مسلہء ہے تو بالی ووڈ ٹایپ فلمیں آپ کے لیے نہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ “جوان” فلم ان لوگوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش ہے جو ‘بالی ووڈ’ طرز کی فلم سازی پر تنقید کر تے ہیں اور بامقصد سنیما کی وکالت کرتے ہیں .

بالی ووڈ جہاں مقصد صرف منافع ہے

مصالحہ فلموں کی کرنسی پر یقین رکھنے والے بالی ووڈ فلم سازعموما ‘اسٹار پاور” کے فارمولے پہ یقین رکھتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے صرف پہلے سے بنے بنایے سپر سٹارز کو ہی اپنی فلموں میں کاسٹ کرتے ہیں۔فلم ‘جوان’ کا بنیادی مقصد بھی ، کم از کم پٹھان سے پہلے کے تناظر میں کسی حد تک ایک مرتے ہوئے سپر اسٹار کی دوبارہ برانڈنگ کرنا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ عرصے سے شاہ رخ خان کی مقبولیت میں ،خاص طور پر نواز الدین صدیقی یا عرفان خان جیسے اداکاروں کے منظر عام پر آنے کے بعد، نمایاں طور پر کمی ہوئی ہے۔ ان اداکاروں نے سنجیدہ اداکاری کی جینوئن صلاحیتوں پر توجہ مبذول کراکے فلم اسٹار کے بجایے ایکٹر کے تصور کو مقبول عام کیا ہے۔ اس کے علاوہ شاہ رخ کی پچھلے کچھ عرصہ میں ریلیز ہونے والی بہت سی فلمیں جیسے کہ رئیس اور دل والے وغیرہ بھی عوام کی توقعات پہ کچھ خاص پوری نہیں اتر سکیں جبکہ ہیری میٹ سیجل، زیرو، اور فین جیسی فلمیں ایک کے بعد ایک فلاپ ہوئیں۔ ‘جوان’ میں شاہ رخ خان نے کووڈ بحران، بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے اور جین ژی کے انفلوینسر کلچر کی وجہ سے اپنی کھوئی ہوئی اسٹار حیثیت کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوان پٹھان سے کچھ خاص مختلف نہیں ہے، جس نے درحقیقت شاہ رخ خان کی گرتی ہوئی شان کو دوبارہ حاصل کرنے کی راہ ہموار کی۔

فلم جوان کا ریویو اس ویڈیو میں دیکھیں

اگرچہ جوان میں شاہ رخ کے کردار کے بارے میں کافی ہایپ کریٹ کی گئ لیکن اس فلم نے ثابت کیا کہ شاہ رخ کا منشا کچھ نیا یا تخلیقی کرنے کے بجائے صرف بالی ووڈ کے پٹے ہوئے انداز میں اپنی واپسی کو یقینی بنانا ہے۔ زیرو میں ایک معذور شخص یا فین میں اینٹی ہیرو کا کردار ادا کرنے کا تجربہ کرنے کے بعد شاید انہوں نے محسوس کیا ہے کہ ان کی فلموں کا ایک خاص برانڈ ہے جو رقص ، رومانس ، کامیڈی اور ایکشن کے بنیادی فارمولے کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ تاہم، اس مصالحے کو موجودہ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے، وہ 58 سال کی عمر میں، صرف اپنی کھلی بانہوں کے مخصوص سٹایل یا جذبات میں کانپتے ہونٹوں اور نتھنوں سے ناظرین کو اپنا دیوانہ نہیں بنا سکتے۔ لہٰذا انہوں نے بالی ووڈ کی نئی محبت، یعنی ساوؑتھ انڈین سنیما کی طرف رجوع کیا اور اس میں خواتین کی نمائندگی کے ٹرینڈ کی آمیزش (Gender representation) کیا کرکے ”جوان“ بنائی ۔

سو ہم دیکھتے ہیں کہ ” جوان ” کے ذریعے پروڈیوسر اور شاہ رخ کی بیوی ،گوری خان جنوبی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے معروف ہدایت کار، اداکار اور خاتون سپر اسٹار کے سنگم سے ایک خالص ستاروں بھری سوشل بالی ووڈ فلم پیش کررہی ہیں جس میں نوجوان نسل کو اٹریکٹ کرنے کے لیے ٹیلنٹڈ لڑکیوں کا ایک گروپ بھی شامل کیا گیا ہے۔ تاہم ستاروں بھرے اس مجمعے میں ایس آر کے چمکنے والے اس واحد ستارے کے طور پر سامنے آتا ہے جس کے سامنے باقی سب ماند پڑ جاتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ‘جوان’ میں شاہ رخ خان کی چمک زیادہ ترساوتھ کی اس شاندار کاسٹ کی ہی مرہون منت ہے ۔ ” آر آر آر ” جیسی فلموں کے بعد بالی ووڈ سے بیزار فلم بینوں میں جنوبی ہندوستانی اداکاروں کے حوالے سے کافی دلچسپی پایئ جاتی ہے۔

‘جوان’ عوامی عدالت میں انصاف کرنے کے خیال پہ مبنی ایک ایسے مرد ہیرو کی کہانی ہے جو اپنے انتقام کے لئے ہائی ٹیک گوریلا آپریشن کی صلاحیت رکھنے والی مضبوط خواتین کے ایک دستے کی تربیت کرتا ہے۔ فلم انصاف کے جس طریقے اور فلسفے پہ مبنی ہے اس کی منصوبہ بندی اور تیاری ایک نڈر اور طاقتور مرد کے ہاتھوں انجام پاتی ہے اور تما بیانیہ بھی اس مرد ہی کے نقطۂ نظر سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ فلم خواتین کی بغاوت اور انقلاب کی حمایت تو کرتی ہے لیکن اسی وقت تک جب تک کہ اس انقلاب و (alpha male) کی سرپرستی ایک باکمال اور بے مثال ایلفا مرد کر رہا ہو

Film Review Jawan
Shah Rukh Khan and Nayanthara in Jawan (2023) Source:IMDB

فلم بڑی تیزی سے ایک سیاسی بیانیے سے سماجی پیغام اور سماجی مسلئے سے مرکزی کردار آزاد کے ذاتی مسائل کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ جو فلم کے پہلے منظر میں عوام کو انصاف دلانے کے لئے ایک میٹرو کو ہائی جیک کرتا ہے۔ اور پھر اگلے ہی منظر میں اپنی شادی کے لئے لڑکی ڈھونڈنے چل پڑتا ہے۔ بالی ووڈ فلم میکنگ سے واقف ناظرین کے لئے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے جب دلہن وہی انٹیل افسر نکل آتی ہے جو میٹرو آپریشن کی نگرانی کررہی تھی۔ سو ناظرین کو فوراً ہی دنیا کے دکھ درد سے نجات دلا کر “فیملی فرینڈلی” حسن و عشق کے خمار میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

فلم ”جوان“ اور خواتین کا کمرشل مقاصد کے لئے استعمال

دلچسپ بات یہ ہے کہ بظاہر تو فلم کے ہدایت کار اور پروڈیوسر ،بلٹ پروف سوٹ میں ملبوس ، خودکار ہتھیاروں سے لیس مرکزی کردارنبھانے والی نین تارا کو ایک طاقتور عورت کے طور پہ پیش کررہے ہیں ہے لیکن فلم میں آگے جاکے اُ س کا کردار بہت کمزور ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ پہلے منظر میں ایک فرض شناس آفیسر کے طور پر نظر آنے والی ایک خود مختار عورت فلم کے “مرد” ہیرو سے ملاقات کے بعد فوراً ہی ایک بھرتی کا کردار۔ (۔subsidiary character) نظر آنے لگتی ہے جس کا اپنا کوئی مقصد نہیں ۔ بلکہ وہ اپنے پارٹنر آزاد کی انصاف مہم میں شامل ہونے کے لیے وفادار افسر کے اپنے خاص روپ کو بھی چھوڑ کر مرد ہیرو کی ماتحت نظر آنے لگتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت کے مردانہ تصور سے جنم لینے والا۔ مضبوط خواتین یا سٹرونگ وومن کا کوئی بھی پورٹریل کبھی بھی فلم دیکھنے والے کے لئے قابل اعتبار نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے مردانہ تعصب چھپائے نہیں چھپتے۔ درحقیقت جوان کا صنفی نمائندگی کا تصور بہت پریشان کن ہے۔

درحقیقت جوان کا صنفی نمائندگی کا تمام تصور ہے ہی بہت پریشان کن ۔ مثال کے طور پہ ” جوان “ کی خواتین اسکواڈ کو بانڈ گرلز کے انداز میں فلم کے زیادہ تر دورانیہ میں اسکرین پر محض پروپس کے طور پر نمودار ہوتی ہیں اور اپنے جدید مگر سیکسی ملبوسات میں فلم کے عظیم ‘کنگ خان’ کے ارد گرد محض کسی خوبصورت پس منظر کی طرح نظر آتی ہیں۔

مزید براں ،اپنی بہادری یا گوریلا انداز واطوار کے باوجود کہانی دونوں اہم خواتین کردار محض ایک مرد کی رومانوی ضروریات پوری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان دونو خواتین کا وجود بالکل محاوراتی طور پر مرد ہیرو کے ”ارد گرد “گھومتا ہے ۔ ہیرو بھی وہ ہے کہ جس کی اسکرین پر موجودگی ایک انتہائی پدر سری انداز میں سب پر”حاوی“ ہے کیونکہ وہ آیک نہیں دو آدمیوں ( باپ بیٹے کی جوڑی ) کا کا کردار ادا کر رہا ہے جن کے ارد گرد ان کو سراہتی حسین خواتین کا گروہ ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ بالی ووڈ کا صدیوں پرانا صنفی امتیاز اور روایتی توقعات ، سنجیدہ ترین خواتین کو تھمکوں اور جھمکوں کے ذریعے مرد کا دل موہ لینے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ۔ اسی طرح فلم کے کسی بھی آفیشل پروموشنل پوسٹر میں خاتون مرکزی کردار یا دیگر خواتین کوواضح طور پر نہیں دکھایا گیا ۔

انسپریشن یا کاپی پیسٹ آرٹ

جوان اپنی بے شمار سلو موشن ایفیکٹس، غیرضروری ٹائم ری میپنگ، یا بسا اوقت قدرے بچگانہ سی جی آئی کے باوجود ایک دلچسپ سنیماٹوگرافک ایکسپیرئنس ہے۔ فلم کے ہائی ٹیک ویژولز اس وقت تک بہت دلچسپ لگتی ہیں جب تک کہ آپ کو مختلف مناظر اور انتہائی تشہیر کئے جانیوالی ‘ایس آر کے ُلکس’ میں ہالی ووڈ سے کچھ غیر ارادی مماثلتیں نظر آنا شروع نہیں ہوتیں۔ فلم کے افتتاحی منظر میں شاہ رخ خان ، سفاک فوجیوں پر بالکل (۔Thor ) تھور جیسے انداز میں نیزہ چلا تے ہوئے یک دم وارد ہوتا ہے۔ اسی طرح شاہ رخ خان کی (Looks) لُکس بھی جوکر، برونو مارس، ڈارک مین وغیرہ سے متاثر نظر آتی ہیں۔ ایک ڈانس سیکوئنس میں، آزاد کی گرل گینگ کے ملبوسات کو ہُوبہُو اوما ترمن کے ِکل بل تھیم والے لباس سے نقل کیا گیا ہے۔ دریں اثنا بہت سارے ایکشن، ملبوسات اور پروڈکشن سٹائل منی ہائیسٹ ، اپوکلپٹا، ایوینجرز اور انڈیانا جونز جیسی کئی فلموں سے متاثر نظر آتی ہیں۔

” جوان “ مارول کے مخصوص سی جی آئی اور سماجی انصاف کے انتقامی پلاٹ سے کافی متاثر نظر آتی ہے ۔ اگرچہ اس فلم میں مصنف / ہدایت کار ایک سنجیدہ سیاسی بیانیہ تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر اس عمل میں وہ درجن بھر مسائل کو ایک ہی فلم میں اُجاگر کرنے پہ مُصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ناظرین کے جذبات کو ابھارنے میں ناکام رہتا ہے کیونکہ فلم کے اکثر شدید سنجیدہ اور جذباتی لمحات تیز رفتار ایکشن یا وقفے وقفے سے در آنے والی کامیڈی سے اپنا اثر بالکل کھو دیتے ہیں۔ فلم کے نام نہاد بولڈ سیاسی پیغام یا تھیم کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہدایت کار ناظرین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے بارے میں کافی فکرمند ہے لہذا وہ گلیمرس گانوں اور رقص کی اچھی خوراک کے ساتھ بے کیف سماجی پیغامات کو یقینی بناتا رہتا ہے ۔

جہاں تک فلم کے بی جے پی مخالف یا اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کے سوال کا سوال ہے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو موجودہ انتہا پسند قوم پرست یا مذہبی بیانیے کو چیلنج کرتا ہو۔ اس کے برعکس ہدایت کار اور ان کے بڑے ستارے ایک طرح سے وطنیت پہ مبنی روایتی ریاستی نظریے کے ہی حامی لگتے ہیں ۔ وطن پرستی اور وفاداری کے بیانیے کی ذمہ داری روایت کے مطابق خاص طور پر صنفی کرداروں ( ڈیپیکا اور نینتھارا) پر ڈالی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ آزاد اور وکرم دونوں ایک جیلر اور فوجی افسر کے کردار میں ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں، دوسرے لفظوں میں روایات و بہادری کے پاسدار اصل ‘جوان’ ۔

یہ خیال کرنا حقیقت سے کوسوں دور لگتا ہے کہ شاہ رخ خان اہنی فلموں کے ذریعے بی جے پی کے ایجنڈے کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لیے انہیں کسی سماجی نظام کو چیلنج کرنے کا کریڈٹ نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم فلم بینوں کو شاہ رخ خان کو صرف ایک ہوشیار انٹرٹینر ہونے کے لئے سراہنا چاہئے جنہوں نے آخر کار سیکھ لیا ہے کہ کس طرح بے توجہی کے اس دور میں بھی اپنے اسٹارڈم کو زندہ رکھنا ہے۔