نصیر الدین شاہ : ایک ”غصیلے بڈھے“ یا غصیلا معاشرہ؟ Naseeruddin Shah Controversial Remarks

0
219

گزشتہ دنوں ہندوستانی فلموں کے عظیم اداکار نصیر الدین شاہ نے آ گے پیچھے کچھ انٹرویوز میں پے در پے چند ایسی باتیں کردیں جو پاکستان ہندوستان دونو ملکوں میں متنازعہ بن گئیں۔ ہیش ٹیگ پاک بھارت عوامی ہم آہنگی زندہ باد۔ ہندوستان میں تو نصیر الدین شاہ سے میڈیا اور انتہا پسند ٹرولز اکثر ہی خوفناک دھمکیوں کی حد تک خفا رہتے ہیں، مگر اس بار پاکستان میں بھی شاہ صاحب کی کچھ باتوں پہ پاکستانیوں نے اُن کی کلاس بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اُن کے لتے لئے تو بے جا نہ ہوگا۔

کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا ::

نصیرالدین شاہ کی فلم ”البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے“ کا تشہیری پوسٹر Source: Wikipedia

وہی نصیرالدین شاہ ہیں جن کو سابقہ وزیراعظم عمران خان نے مودی کے بھارت کو چھوڑ کے پاکستان آکے رہنے کی دعوت دی تھی۔ نیازی کی یہ دعوت نصیر الدین شاہ نے اپنی خاص شانِ بے نیازی سے ٹھکرادی تھی۔ جی وہی نصیرالدین شاہ جو 2008 کے بعد پاکستانی سینیما اور ثقافت کے ریویوال کے لئے کی جانے والی کوششوں میں اتنے پیش پیش رہے کہ ایک اطلاع کے مطابق پاکستانی فلم “زندہ بھاگ” اور “خدا کے لئے” میں معاوضے کی کمی کی پروا کئے بغیر ہی ان فلموں میں کام کرنے پہ رضامند ہوگئے کیونکہ ان کے خیال میں یہ پاکستانی فلمیں بالی ووڈ مومویز سے ہزار درجہ بہتر تھیں اور وہ اس انڈسٹری کو سپورٹ کرنا چاہتے تھے۔

جی وہی نصیر الدین شاہ اب پاکستانیوں کے غیض وغضب کا شکار ہوگئے جب انہوں نے ایک انٹرویو میں کہہ دیا کہ “بے شک اب پاکستان میں سندھی زبان کوئی بھی نہیں بولتا”۔ چلیں ٹھیک ہے کہ شاہ صاحب کچھ زیادہ ہی غلط بیانی یا کم علمی کا مظاہرہ کر گئے۔ مگر یہ کیا کہ اس کے ردِعمل میں پاکستانی صارفین اور سلیبریٹیز نے انٹرنیٹ پہ انہیں “سٹھیائے بڈھے” “پاگل انکل” اور جانے کیا کیا کہہ ڈالا جو شاید ایک بڑے فنکار اور خصوصاً وہ اداکار جو ہمیشہ پاکستان میں آرٹ اور فلم کو عملی طور پر سپورٹ کرتا رہا ہے، کے لئے مناسب نہیں ۔

” واٹس ایپ کی ڈگری والے ایک اور انکل ۔“

”ڈان ڈاٹ کام کا ایک تبصرہ“

بعض لوگوں نے یہ بھی کہا کہ نصیر الدین شاہ ایک منفی اور غصیلا مزاج رکھنے والے شخص ہیں جو ہمیشہ ہی کوئی متنازع یا بے بنیاد بیان دے کر اُس پہ ڈٹ جاتے ہیں ۔ گو شاہ جی نے عوامی اعتراض کے کچھ ہی دیر بعد سوشل میڈیا پہ اپنی بات کو کم علمی پہ معمول کرتے ہوئے سندھی بولنے والوں سے معافی مانگ لی تھی۔ لیکن یہ واقعہ اور آئے دن انٹرنیٹ پہ اسی طرح لوگوں پہ طعن و تنقید (کالنگ آؤٹ) کرنا آج کل کا عمومی مزاج بن گیا ہے۔ کہیں کسی عام یا خاص شخص نے کوئی بات جانے یا انجانے میں کہہ دی اور وہاں اُس پہ اعتراضات و الزامات کے پلندے گرائے جانے لگے ۔ جب تک کہ وہ شخص نفسیاتی یا سماجی طور پر مکمل برباد نہیں ہوجاتا طعن و تنقید کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جذبات مجروح ہونے اور سماجی محاسبہ کرنے کی جدید روایت اس قدر پروان چڑھ گئی ہے کہ اب اگر کوئی غلطی سے اپنی پسند کے رنگ کا نام بھی بتادے تو لوگ ،خصوصاً انٹرنیٹی عوام ، اُس کے لئے نا قابلِ معافی سزائیں تجویز کرنا شروع کردیتے ہیں صرف اس لئے کہ یہ رنگ اُنکی پسند سے میل نہیں کھاتا۔

Naseeruddin Shah Criticised Over Sindhi Language Remarks

غصے اور عدم برداشت کے اس کلچر کا اندازہ تحفظِ ماحول کے اُن ایکٹوسٹس کے سے لگایا جاسکتا ہے جنھوں نے گلوبل وارمنگ کے خطرے پہ توجہ دلانے کے لئے جرمن شہر پوسٹ ڈام آرٹسٹ “مونے” کے عظیم فن پاروں کو برباد کردیا۔ یہاں ہماری دور کی نوجوان ایکٹوسٹ “گریٹا ٹھن برگ” کی وہ تصویر قابل ذکر ہے جس میں وہ شدید غصے میں دکھائی دیتی ہے اور اکثر میمز (Memes) میں استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح جب لوگ (clapback) کرتے ہیں تو انٹرنیٹ فین بجائے پریشان ہونے کے اپنے اپنے پسندیدہ سیلبرٹی کو ری ٹویٹ اور لائکس دیتے ہیں۔ یہ رویے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آج کا دور نفرت، تشدد اور عدم برداشت کی اقدار کو پزیرائی دی جارہی ہے ۔

Environmental Activists Smear Art In Germany
ماحولیاتی ایکٹوسٹس تباہ شدہ مونے کی پینٹگ کیساتھ
Source: Artnews.com

جہاں تک نصیر الدین شاہ کی بات ہے تو یہ عظیم ایکٹر “اینگری ینگ مین” سے شروع ہوتے ہوتے “اینگری اولڈمین” “غصیلے کھڑوس بڈھے” کے القابات سے مشہور ہونے لگے ہیں۔

میں مانتا ہوں اس معاملے پہ میری رائے لاعلمی پہ مبنی تھی ۔ لیکن کیا اس معاملے پہ مجھے سُولی چڑھا دینا ضروری تھا؟“

”البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے” جیسی لازوال سماجی فلموں میں کام کرنے والے شاہ صاحب واقعتاً اپنی فلموں کے کرداروں کی طرح ناراض اور غصیلے لگنے لگے ہیں۔ مثال کے طور پہ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا || ہمارے بڑے مہان اداکاروں کا خیال رکھتے ہیں لیکن معمولی لائٹ مین، گیفر، میک اپ اسسٹنٹ اُنکے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔|| اسی طرح دلیپ کمار کے بارے میں انہوں نے کہا اپنے کیرئر بنانے کے کے علاوہ لبھی کوئی بڑا تخلیقی کام نہیں کیا جس سے نئے فنکاروں کو کوئی فائدہ ہو۔ اسی طرح نصیر ایک دفعہ اپنے بیان میں راجیش کھنہ کو “بُرا اداکار” اور انوپم کھیر کو “جوکر” بھی کہ چُکے ہیں۔” “میں سینیما سے اکتا گیا ہوں۔” “میرے نزدیک بالی ووڈ نہایت بے ہودہ فلمیں بنا رہا ہے۔” اسی طرح انڈیا کے بگڑتے ہوئے سماجی حالات پہ انہوں نے کہا “مجھے ہندوستان میں اپنے اور اپنی فیملی کے لئے غیر محفوظ سمجھتا ہوں۔”

اُن کے اعتراض اس کی وجہ بالی ووڈ کی مضحکہ خیز فارمولہ فلمیں ہیں یا بھارت میں ناقابلِ یقین حد تک بڑھتی ہوئی مذہبی جارحیت ہے اس بارے میں وہ خود ہی بہتر بتا سکتے ہیں ۔ جیسے کہ انہوں نے مزکورہ واقعہ پہ معافی مانگتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پہ لکھا ”اوکے اوکے میں ساری سندھی کمیونٹی سے معافی مانگتا ہوں جن کے جذبات کو میں نے ان جانے میں مجروح کیا۔ میں مانتا ہوں اس معاملے پہ میری رائے لاعلمی پہ مبنی تھی ۔ لیکن کیا اس معاملے پہ مجھے سُولی چڑھا دینا ضروری تھا؟“