Home ہوم Blog Page 3

فلم ریویو “جوان” | شاہ رخ خان کی کلچرل پالیٹیکس

0

گزشتہ چند سالوں میں نیٹ فلکس اور دیگر اسٹریمنگ سروسز نے فلم سازی کے فارمیٹ اور اسٹائل کو بہت تبدیل کر دیا ہے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا بھر کے لوگوں کے احساست و نظریات میں بدلاؤ آیا وہیں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے طور طریقے اوربزنس ماڈل پر بھی اثر پڑا ہے۔ مگر لگتا ہے کہ بالی ووڈ کے روایتی سرمایہ کار دنیا کی اس بدلتی جمالیات سے ابھی تک بے پرواہ ہیں۔ شاہ رخ خان کی تازہ ترین ‘ہٹ’ فلم ”جوان“ کودیکھ کے اس بات کا اور زیادہ یقین ہونے لگتا ہے۔

کیا ایک کمرشل فلم سے سوشل تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے؟

خبروں کے مطابق شاہ رخ خان کی اس فلم نے باکس آفس پر نہ صرف ریکارڈ بزنس کیا ہے بلکہ یہ بالی ووڈ کو گزشتہ دو تین سالوں کے خسارے سے بھی نکالنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ لیکن جہاں تک فلم کی کہانی، اداکاری یا سیاسی حثیت کا تعلق ہے، اس فلم میں ایسی کوئی نئی بات نہیں ہے جو اسے گزشتہ فلموں سے مختلف بناتی ہو۔

  ‘میگا ہٹ ‘جوان‘ اس بات کا بلند اعلان ہے کہ ‘بالی ووڈ’ جس حیثیت اور جس وضع کی فلمیں بنانے کے لیے مشہور ہے اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا جائے گا، یعنی مصالحہ فلمیں یا فارمولہ فلمیں ۔ سو اگر آپ کو سال 2023 میں نئے دور کے بدلتے موضوعات سے دلچسپی ہے یا یوں کہیے کہ اگر آپ کو مصالحوں سے کوئی مسلہء ہے تو بالی ووڈ ٹایپ فلمیں آپ کے لیے نہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ “جوان” فلم ان لوگوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش ہے جو ‘بالی ووڈ’ طرز کی فلم سازی پر تنقید کر تے ہیں اور بامقصد سنیما کی وکالت کرتے ہیں .

بالی ووڈ جہاں مقصد صرف منافع ہے

مصالحہ فلموں کی کرنسی پر یقین رکھنے والے بالی ووڈ فلم سازعموما ‘اسٹار پاور” کے فارمولے پہ یقین رکھتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے صرف پہلے سے بنے بنایے سپر سٹارز کو ہی اپنی فلموں میں کاسٹ کرتے ہیں۔فلم ‘جوان’ کا بنیادی مقصد بھی ، کم از کم پٹھان سے پہلے کے تناظر میں کسی حد تک ایک مرتے ہوئے سپر اسٹار کی دوبارہ برانڈنگ کرنا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کچھ عرصے سے شاہ رخ خان کی مقبولیت میں ،خاص طور پر نواز الدین صدیقی یا عرفان خان جیسے اداکاروں کے منظر عام پر آنے کے بعد، نمایاں طور پر کمی ہوئی ہے۔ ان اداکاروں نے سنجیدہ اداکاری کی جینوئن صلاحیتوں پر توجہ مبذول کراکے فلم اسٹار کے بجایے ایکٹر کے تصور کو مقبول عام کیا ہے۔ اس کے علاوہ شاہ رخ کی پچھلے کچھ عرصہ میں ریلیز ہونے والی بہت سی فلمیں جیسے کہ رئیس اور دل والے وغیرہ بھی عوام کی توقعات پہ کچھ خاص پوری نہیں اتر سکیں جبکہ ہیری میٹ سیجل، زیرو، اور فین جیسی فلمیں ایک کے بعد ایک فلاپ ہوئیں۔ ‘جوان’ میں شاہ رخ خان نے کووڈ بحران، بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈے اور جین ژی کے انفلوینسر کلچر کی وجہ سے اپنی کھوئی ہوئی اسٹار حیثیت کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جوان پٹھان سے کچھ خاص مختلف نہیں ہے، جس نے درحقیقت شاہ رخ خان کی گرتی ہوئی شان کو دوبارہ حاصل کرنے کی راہ ہموار کی۔

فلم جوان کا ریویو اس ویڈیو میں دیکھیں

اگرچہ جوان میں شاہ رخ کے کردار کے بارے میں کافی ہایپ کریٹ کی گئ لیکن اس فلم نے ثابت کیا کہ شاہ رخ کا منشا کچھ نیا یا تخلیقی کرنے کے بجائے صرف بالی ووڈ کے پٹے ہوئے انداز میں اپنی واپسی کو یقینی بنانا ہے۔ زیرو میں ایک معذور شخص یا فین میں اینٹی ہیرو کا کردار ادا کرنے کا تجربہ کرنے کے بعد شاید انہوں نے محسوس کیا ہے کہ ان کی فلموں کا ایک خاص برانڈ ہے جو رقص ، رومانس ، کامیڈی اور ایکشن کے بنیادی فارمولے کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ تاہم، اس مصالحے کو موجودہ وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے، وہ 58 سال کی عمر میں، صرف اپنی کھلی بانہوں کے مخصوص سٹایل یا جذبات میں کانپتے ہونٹوں اور نتھنوں سے ناظرین کو اپنا دیوانہ نہیں بنا سکتے۔ لہٰذا انہوں نے بالی ووڈ کی نئی محبت، یعنی ساوؑتھ انڈین سنیما کی طرف رجوع کیا اور اس میں خواتین کی نمائندگی کے ٹرینڈ کی آمیزش (Gender representation) کیا کرکے ”جوان“ بنائی ۔

سو ہم دیکھتے ہیں کہ ” جوان ” کے ذریعے پروڈیوسر اور شاہ رخ کی بیوی ،گوری خان جنوبی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے معروف ہدایت کار، اداکار اور خاتون سپر اسٹار کے سنگم سے ایک خالص ستاروں بھری سوشل بالی ووڈ فلم پیش کررہی ہیں جس میں نوجوان نسل کو اٹریکٹ کرنے کے لیے ٹیلنٹڈ لڑکیوں کا ایک گروپ بھی شامل کیا گیا ہے۔ تاہم ستاروں بھرے اس مجمعے میں ایس آر کے چمکنے والے اس واحد ستارے کے طور پر سامنے آتا ہے جس کے سامنے باقی سب ماند پڑ جاتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ‘جوان’ میں شاہ رخ خان کی چمک زیادہ ترساوتھ کی اس شاندار کاسٹ کی ہی مرہون منت ہے ۔ ” آر آر آر ” جیسی فلموں کے بعد بالی ووڈ سے بیزار فلم بینوں میں جنوبی ہندوستانی اداکاروں کے حوالے سے کافی دلچسپی پایئ جاتی ہے۔

‘جوان’ عوامی عدالت میں انصاف کرنے کے خیال پہ مبنی ایک ایسے مرد ہیرو کی کہانی ہے جو اپنے انتقام کے لئے ہائی ٹیک گوریلا آپریشن کی صلاحیت رکھنے والی مضبوط خواتین کے ایک دستے کی تربیت کرتا ہے۔ فلم انصاف کے جس طریقے اور فلسفے پہ مبنی ہے اس کی منصوبہ بندی اور تیاری ایک نڈر اور طاقتور مرد کے ہاتھوں انجام پاتی ہے اور تما بیانیہ بھی اس مرد ہی کے نقطۂ نظر سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ فلم خواتین کی بغاوت اور انقلاب کی حمایت تو کرتی ہے لیکن اسی وقت تک جب تک کہ اس انقلاب و (alpha male) کی سرپرستی ایک باکمال اور بے مثال ایلفا مرد کر رہا ہو

Film Review Jawan
Shah Rukh Khan and Nayanthara in Jawan (2023) Source:IMDB

فلم بڑی تیزی سے ایک سیاسی بیانیے سے سماجی پیغام اور سماجی مسلئے سے مرکزی کردار آزاد کے ذاتی مسائل کی طرف منتقل ہوتی ہے۔ جو فلم کے پہلے منظر میں عوام کو انصاف دلانے کے لئے ایک میٹرو کو ہائی جیک کرتا ہے۔ اور پھر اگلے ہی منظر میں اپنی شادی کے لئے لڑکی ڈھونڈنے چل پڑتا ہے۔ بالی ووڈ فلم میکنگ سے واقف ناظرین کے لئے کوئی تعجب کی بات نہیں ہے جب دلہن وہی انٹیل افسر نکل آتی ہے جو میٹرو آپریشن کی نگرانی کررہی تھی۔ سو ناظرین کو فوراً ہی دنیا کے دکھ درد سے نجات دلا کر “فیملی فرینڈلی” حسن و عشق کے خمار میں دھکیل دیا جاتا ہے۔

فلم ”جوان“ اور خواتین کا کمرشل مقاصد کے لئے استعمال

دلچسپ بات یہ ہے کہ بظاہر تو فلم کے ہدایت کار اور پروڈیوسر ،بلٹ پروف سوٹ میں ملبوس ، خودکار ہتھیاروں سے لیس مرکزی کردارنبھانے والی نین تارا کو ایک طاقتور عورت کے طور پہ پیش کررہے ہیں ہے لیکن فلم میں آگے جاکے اُ س کا کردار بہت کمزور ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ پہلے منظر میں ایک فرض شناس آفیسر کے طور پر نظر آنے والی ایک خود مختار عورت فلم کے “مرد” ہیرو سے ملاقات کے بعد فوراً ہی ایک بھرتی کا کردار۔ (۔subsidiary character) نظر آنے لگتی ہے جس کا اپنا کوئی مقصد نہیں ۔ بلکہ وہ اپنے پارٹنر آزاد کی انصاف مہم میں شامل ہونے کے لیے وفادار افسر کے اپنے خاص روپ کو بھی چھوڑ کر مرد ہیرو کی ماتحت نظر آنے لگتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقت کے مردانہ تصور سے جنم لینے والا۔ مضبوط خواتین یا سٹرونگ وومن کا کوئی بھی پورٹریل کبھی بھی فلم دیکھنے والے کے لئے قابل اعتبار نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے مردانہ تعصب چھپائے نہیں چھپتے۔ درحقیقت جوان کا صنفی نمائندگی کا تصور بہت پریشان کن ہے۔

درحقیقت جوان کا صنفی نمائندگی کا تمام تصور ہے ہی بہت پریشان کن ۔ مثال کے طور پہ ” جوان “ کی خواتین اسکواڈ کو بانڈ گرلز کے انداز میں فلم کے زیادہ تر دورانیہ میں اسکرین پر محض پروپس کے طور پر نمودار ہوتی ہیں اور اپنے جدید مگر سیکسی ملبوسات میں فلم کے عظیم ‘کنگ خان’ کے ارد گرد محض کسی خوبصورت پس منظر کی طرح نظر آتی ہیں۔

مزید براں ،اپنی بہادری یا گوریلا انداز واطوار کے باوجود کہانی دونوں اہم خواتین کردار محض ایک مرد کی رومانوی ضروریات پوری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان دونو خواتین کا وجود بالکل محاوراتی طور پر مرد ہیرو کے ”ارد گرد “گھومتا ہے ۔ ہیرو بھی وہ ہے کہ جس کی اسکرین پر موجودگی ایک انتہائی پدر سری انداز میں سب پر”حاوی“ ہے کیونکہ وہ آیک نہیں دو آدمیوں ( باپ بیٹے کی جوڑی ) کا کا کردار ادا کر رہا ہے جن کے ارد گرد ان کو سراہتی حسین خواتین کا گروہ ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ بالی ووڈ کا صدیوں پرانا صنفی امتیاز اور روایتی توقعات ، سنجیدہ ترین خواتین کو تھمکوں اور جھمکوں کے ذریعے مرد کا دل موہ لینے کی ترغیب دیتی ہیں۔ ۔ اسی طرح فلم کے کسی بھی آفیشل پروموشنل پوسٹر میں خاتون مرکزی کردار یا دیگر خواتین کوواضح طور پر نہیں دکھایا گیا ۔

انسپریشن یا کاپی پیسٹ آرٹ

جوان اپنی بے شمار سلو موشن ایفیکٹس، غیرضروری ٹائم ری میپنگ، یا بسا اوقت قدرے بچگانہ سی جی آئی کے باوجود ایک دلچسپ سنیماٹوگرافک ایکسپیرئنس ہے۔ فلم کے ہائی ٹیک ویژولز اس وقت تک بہت دلچسپ لگتی ہیں جب تک کہ آپ کو مختلف مناظر اور انتہائی تشہیر کئے جانیوالی ‘ایس آر کے ُلکس’ میں ہالی ووڈ سے کچھ غیر ارادی مماثلتیں نظر آنا شروع نہیں ہوتیں۔ فلم کے افتتاحی منظر میں شاہ رخ خان ، سفاک فوجیوں پر بالکل (۔Thor ) تھور جیسے انداز میں نیزہ چلا تے ہوئے یک دم وارد ہوتا ہے۔ اسی طرح شاہ رخ خان کی (Looks) لُکس بھی جوکر، برونو مارس، ڈارک مین وغیرہ سے متاثر نظر آتی ہیں۔ ایک ڈانس سیکوئنس میں، آزاد کی گرل گینگ کے ملبوسات کو ہُوبہُو اوما ترمن کے ِکل بل تھیم والے لباس سے نقل کیا گیا ہے۔ دریں اثنا بہت سارے ایکشن، ملبوسات اور پروڈکشن سٹائل منی ہائیسٹ ، اپوکلپٹا، ایوینجرز اور انڈیانا جونز جیسی کئی فلموں سے متاثر نظر آتی ہیں۔

” جوان “ مارول کے مخصوص سی جی آئی اور سماجی انصاف کے انتقامی پلاٹ سے کافی متاثر نظر آتی ہے ۔ اگرچہ اس فلم میں مصنف / ہدایت کار ایک سنجیدہ سیاسی بیانیہ تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر اس عمل میں وہ درجن بھر مسائل کو ایک ہی فلم میں اُجاگر کرنے پہ مُصر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ناظرین کے جذبات کو ابھارنے میں ناکام رہتا ہے کیونکہ فلم کے اکثر شدید سنجیدہ اور جذباتی لمحات تیز رفتار ایکشن یا وقفے وقفے سے در آنے والی کامیڈی سے اپنا اثر بالکل کھو دیتے ہیں۔ فلم کے نام نہاد بولڈ سیاسی پیغام یا تھیم کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہدایت کار ناظرین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے بارے میں کافی فکرمند ہے لہذا وہ گلیمرس گانوں اور رقص کی اچھی خوراک کے ساتھ بے کیف سماجی پیغامات کو یقینی بناتا رہتا ہے ۔

جہاں تک فلم کے بی جے پی مخالف یا اسٹیبلشمنٹ مخالف ہونے کے سوال کا سوال ہے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو موجودہ انتہا پسند قوم پرست یا مذہبی بیانیے کو چیلنج کرتا ہو۔ اس کے برعکس ہدایت کار اور ان کے بڑے ستارے ایک طرح سے وطنیت پہ مبنی روایتی ریاستی نظریے کے ہی حامی لگتے ہیں ۔ وطن پرستی اور وفاداری کے بیانیے کی ذمہ داری روایت کے مطابق خاص طور پر صنفی کرداروں ( ڈیپیکا اور نینتھارا) پر ڈالی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ آزاد اور وکرم دونوں ایک جیلر اور فوجی افسر کے کردار میں ریاست کی نمائندگی کرتے ہیں، دوسرے لفظوں میں روایات و بہادری کے پاسدار اصل ‘جوان’ ۔

یہ خیال کرنا حقیقت سے کوسوں دور لگتا ہے کہ شاہ رخ خان اہنی فلموں کے ذریعے بی جے پی کے ایجنڈے کو چیلنج کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لیے انہیں کسی سماجی نظام کو چیلنج کرنے کا کریڈٹ نہیں دیا جاسکتا۔ تاہم فلم بینوں کو شاہ رخ خان کو صرف ایک ہوشیار انٹرٹینر ہونے کے لئے سراہنا چاہئے جنہوں نے آخر کار سیکھ لیا ہے کہ کس طرح بے توجہی کے اس دور میں بھی اپنے اسٹارڈم کو زندہ رکھنا ہے۔

پریم چند: اردو یا ہندی ادیب؟ : Premchand Urdu or Hindi Writer

1

پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ اُنکی پیدائش اکتیس جولائی 1885 /بنارس میں ہوئی۔ پریم چند نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز رسالہ زمانہ“ سے کیا۔ اُن کی مشہور تصانیف: سوزِ وطن، غبن، گئو دان، چوگان ِ ہستی، بازارِحسن پریم پچیسی وغیرہ ہیں۔ “کفن” اور ”عید گاہ“ جیسےعظیم افسانے ان کے اشتراکی خیالات اور بہترین حقیقت نگاری کا شاہکار ہیں۔

Premchand: Source Amrit Rai

اُردو ادب کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ کیونکہ اس زبان میں لکھنے والے ایک ایسی متنوع ہندوستانی ثقافت (Diverse Cultural Background) سے تعلق رکھتے تھے جس کا حصہ مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی ،پارسی سبھی طرح کے افراد تھے۔ انہی لوگوں میں سے ایک بڑا نام منشی پریم چند کا بھی ہے جنہوں نے اردو اور ہندی زبان کو نہ صرف عظیم ادب دیا بلکہ انکے بولنے والوں کو قریب لانے میں فعال کردا ادا کیا۔

پریم چند کے افسانوں کی زبان نہایت سادہ اور عام بول چال کی ہے۔ اُن کے کرداروں کی گفتگو سے کسی عظیم فلسفے کا نہیں بلکہ چلتے پھرتے انسانوں کی حقیقی زندگی کے مسائل اور خصوصیات کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پریم چند ادب میں حقیتت پرستی کی تحریک سے وابستہ تھے۔ اسی لئے انہوں نے کسی افسانوی یا بورژوائی منظرنامے کے بجائے اکثر و بیشتر ہندوستان کے دیہات اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے کسان، زمیندار، طوائف، بیوہ اور مزدورعورت مرد کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔

Books of Urdu Writer Munshi Premchand
منشی پریم چند کی تصنیفات

کیونکہ پریم چند کے دور میں فن و ادب مارکسزم سے متاثر تھے اسی لئے انہوں نے بھی اپنی حقیقت پسندی کی عمارت اشتراکی خیالات پہ ہی تعمیر کی۔ لہٰذا جس طرح روسی ادیب معمولی کلرک، مزدور اور کسان کی زندگیوں پہ مبنی ادب تخلیق کرنے پہ زور دے رہے تھے اُسی طرح پریم چند نے بھی ہندوستان کے غریب مزدورعوام کے استحصال کی کہانی لکھ کر اُس کے مسائل اور حالات سے آگاہ کیا۔ ان کی کہانیاں ہندوستانی سماج میں پائے جانے والے بری روایات مثلاً استحصالی زمینداری نظام ، جہیز، کم عمری کی شادی، عورت کا جنسی استحصال، قرض اور کام چوری کی لعنت وغیرہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی ہیں اور پڑھنے والے کو اِن سماجی بُرائیوں کے خاتمے کے لئے آواز اُٹھانے پہ مائل کرتی نظر آتی ہیں۔

پریم چند کے نزدیک ادب کا مقصد : حقیقی زندگی پہ تنقید


Hindu Fiction Writers of Urdu
پریم چند : دی وائر Premchand : (TheWire)

ہندوستان میں ترقی پسند ادیبوں کی تنظیم (Progressive Writers Association) اُنیس سو پینتیس (1935) میں قائم کی گئی جس کی صدارت پریم چند نے کی ۔اس موقع پر انہوں نے ادیبوں کو ترقی پسندانہ خیالات پہ مبنی حقیقی زندگی کی عکاسی کرنے والا ادب تخلیق کرنے پہ زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید دور میں ادب کا کام انسان کی روحانی اور اخلاقی تربیت کرنا ہے لہٰذا اچھے ادیب کو ایسا ادب تخلیق نہیں کرنا چاہیے جس کا زندگی میں کوئی “مقصد یا مصرف” نہ ہو۔ ان کے خیال میں ہندوستانی ادیب ”فسانۂ عجائب “ یا ”چندر کانتا“ جیسی رومانوی اور افسانوی داستانیں لکھ کر عوام کو حقیقی زندگی سے دور رکھتے رہے ہیں جبکہ ادیب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حالات و واقعات کو کہانی کی شکل میں پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرکے ان کے سماجی شعور کو بہتر کرے۔

برطانوی راج کی عیاری اور لکھنو کے نوابوں کے زوال پہ بنائی گئی ستیہ جیت رائے کی مشہور فلم “شطرنج کے کھلاڑی“ پریم چند کی ایک کہانی پہ مبنی ہے اور ہندوستانی سینیما کی اہم فلموں میں شمار ہوتی ہے

Shatranj ke Khiladi (The Chess Players) Youtube

پریم چند اُردو یا ہندی کا ادیب ؟

جب پریم چند کے افسانوں اور ناولوں کی بات ہوتی ہے تو اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا انہیں اُردو کے ادیب کے طور پہ تسلیم کیا جائے یا یا ہندی کے؟ اس کا جواب جانے کے لئے اُن کی تصانیف کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونو ملکوں کے موجودہ سیاسی حالات کے پیشِ نظر کچھ لوگ اُنہیں محض ہندی یا محض اردو کا ادیب مانتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اردو ہندی کے تنازعے کو ختم کرنے کے لئے اپنا بھرہور کردار ادا کیا اور ان زبانوں کو محض ہندوں یا مسلمانوں سے جُڑے ہونے کے تصور کو ٹھکراتے ہوئے اُردو اور ہندی دونو زبانوں میں ادب لکھا۔ اسی مقصد کے لئے پریم چند نے ایک ہندوستانی سبھا کے قیام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کا اہم کام ”ہندوستانی“زبان کی ترویج تھا تاکہ اردو-ہندی کے مسلئے پرادیبوں میں ایک متقفہ لائحہ عمل بنایا جائے۔ اُن کے نزدیک اس زبان کے نام پہ فساد کو ختم کرکے دوریاں مٹانا ہندوستان کے مصنفین کی ایک بنیادی زمہ داری تھی۔

Premchand Signing A Contract in Bombay Source Amrit Rai

پریم نے اردو اپنی ابتدائی عمر میں ایک مدرسے کے مولوی صاحب سے سیکھی۔ اُن کی سب سے پہلی کہانی “دنیا کا سب سے انمول رتن” 1907 میں اُردو رسالہ زمانہ میں چھپی ۔ اسی زمانے میں انہوں نے “ہم خوار و ہم ثواب ” “سوزِ وطن” “روٹھی رانی ” وغیرہ بھی اردو ہی میں تحریر کیں ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ منشی پریم چند نے اپنے ادبی کیرئیر کا آغاز بلاشبہ اُردو ادب سے ہی کیا اور اردو فکشن میں حقیقت پسندی کی تحریک شروع کرنے کا سہرا انہی کے سر ہے۔ تاہم جس دور میں انہوں نے لکھا اس وقت یہ زبان ہندوستانی کہلاتی تھی۔ اور جیسا کہ پریم چند نے پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کے پہلے جلسے سے خطاب میں بھی کہا کہ ادیب کے لئے اردو یا ہندی زبان میں لکھنے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے اُس کا اہم فرض یہ ہی کہ وہ مقصدی ادب تحریر کرے جس سے سماج کی حالت سدھارنے یا بیان کرنے کی کوئی صورت نکلتی ہو۔

پریم چند کی سب سے پہلی کہانی “دنیا کا سب سے انمول رتن” 1907 میں اُردو رسالہ زمانہ میں چھپی

نصیر الدین شاہ : ایک ”غصیلے بڈھے“ یا غصیلا معاشرہ؟ Naseeruddin Shah Controversial Remarks

0

گزشتہ دنوں ہندوستانی فلموں کے عظیم اداکار نصیر الدین شاہ نے آ گے پیچھے کچھ انٹرویوز میں پے در پے چند ایسی باتیں کردیں جو پاکستان ہندوستان دونو ملکوں میں متنازعہ بن گئیں۔ ہیش ٹیگ پاک بھارت عوامی ہم آہنگی زندہ باد۔ ہندوستان میں تو نصیر الدین شاہ سے میڈیا اور انتہا پسند ٹرولز اکثر ہی خوفناک دھمکیوں کی حد تک خفا رہتے ہیں، مگر اس بار پاکستان میں بھی شاہ صاحب کی کچھ باتوں پہ پاکستانیوں نے اُن کی کلاس بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اُن کے لتے لئے تو بے جا نہ ہوگا۔

کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا ::

امجد اسلام امجد : محبت اور جدیدنظم کا پھیلاؤ

0

امجد اسلام امجد : کلاسیکی رومانوی شاعری کا آخری ستارہ

اُمجد اس حوالے سے خوش قسمت تھے کہ جس دور میں انہوں نے اپنے تخلیقی کیرئیر کا آغاز کیا (غالباً سن 69 میں ) وہ پاکستانی ادب کا تابناک ترین عہد تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جون ایلیا ، احمد ندیم قاسمی ، قتیل شفائی ،افتخار عارف ، شبنم شکیل، کشور ناہید،فہمیدہ ریاض ،احمد فراز ، منیر نیازی، محسن نقوی وغیرہ جیسے فصاحت و بصیرت رکھنے والے دانشور اردو شعر وادب میں بلند معیارات قائم کررہے تھے ۔ نوجوان شاعر کے طور پہ امجد اسلام امجد کی تخلیقات احمد ندیم قاسمی کے ادبی رسالے “فنون” میں شائع ہوتی رہیں۔ امجد ،احمد ندیم قاسمی کو اپنا استاد مانتے تھے قاسمی صاحب سے اُنکا قربت اور عقیدت کا تعلق رہا۔

اگر یہ کہا جائے کہ امجد اسلام امجد عوام الناس میں اپنی ڈرامہ نگاری کی وجہ سے زیادہ مقبول ہوئے تو بے جا نہ ہوگا۔پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پہ نشر ہونے والا انکا ڈرامہ “وارث” اگرچہ ستر کے عشرے میں بنایا گیا لیکن آج تک اردو ٹی وی کے ناظرین “چوہدری حشمت “ کے کردار سے واقف ہیں ۔ تاہم امجد اسلام امجد بنیادی طور پر ایک بہترین شاعر تھے۔ اُنہوں نے ستر (70) کے قریب کتابیں لکھی جن میں برزخ، ساتواں در، فشار، ذرا پھر سے کہنا، اُس پار، کالے لوگوں کی روشن نظمیں، بارش کی آواز، میرے بھی ہیں ،کچھ خواب ، دیکھتے چلے گئے وغیرہ شامل ہیں۔

امجد اسلام امجد بطور گیت نگار :

امجد اسلام امجد کے گیت نورجہاں ، نصرت فتح علی خان، راحت فتح علی، آشا بھوسلے، حامد علی خان سے لے کر ابرار الحق اور حمیرا چنا جیسے گلوکاروں نے گائے اورنہائت مقبول ہوئے۔ اُنکے گیتوں میں

وارث (1979),” دہلیز“ اور ”سمندر“ کے بعد امجد اسلام امجد نے جو ڈرامے لکھے ان میں “دن” “رات” “فشار” “وقت” ” “انکار”حصار” شامل ہیں۔ انہوں نے جن فلموں کے لئے سکرپٹ لکھا اُن میں “جو ڈر گیا وہ مر گیا“ “سلاخیں“ اور


امجد اسلام امجد نظریاتی طور پر پاکستان کے قدامت پرست مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ عطا الحق قاسمی،حسن رضوی ،اشفاق احمد جیسے دائیں بازو کے دانشور اُنکے قریبی حلقۂ احباب میں شامل تھے۔ امجد کے ڈراموں میں بھی پُرانی اقدار کی ستائش، نئی نسل کی بے راہ روی، عورت کا ایک مخصوص پدر شاہی تصور اور جمہوری آزادی کے بجائے قدیم روایات اور بزرگ افراد کی طاقت (اتھارٹی) پر زور دیا جاتا ہے۔ (اگرچہ اپنے ایک اخباری کالم میں امجد اسلام امجد نے یہ وضاحت کی ہے کہ اپنی تخلیقی اور پیشہ ورانہ مقاصد کی تکمیل کے سفر میں انہیں نظریاتی وابستگی کے حوالے سے دائیں اور بائیں بازو ، دونو مکتبہ فکر کیجانب سے شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ حالانکہ وہ بذات خود کسی ایک انتہا سے جڑنے کے بجائے کسی معتدل سکول آف تھاٹ کی جستجو میں رہے، جو کہ اُنہیں پاکستانی ترقی پسندوں کی سُرخ اور مذہبیت پسندوں کی سبز سیاست کے بیچ کی کسی شاہراہ پہ لے جائے۔

تاہم امجد کے سرکاری کرئیر ، سیاسی وابستکی اور تخلیقی اظہار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ روایت پرستی یا معتدل کنزروٹیزم کے حامی تھے۔

Famous Song “Mann Ki Lagan” was penned down by Amjad Islam Amjad (Source: IMDB)

چونکہ اس تحریر کا مقصد امجد پہ کوئی متعصبی ٹھپہ لگانا نہیں بلکہ مراد صرف ایک ادیب کے فکری رجحان کا سراغ ہے اس لئے یہاں ہم اس تفصیل میں نہیں جائیں گے کہ ایک شاعر کے اے کیو خان یا الخدمت ٹرسٹ جیسے اداروں میں سرگرم ہونے کی وجہ سے اسکے نظریات پہ حتمی رائے قائم کی جانی چاہیے یا نہیں۔ لیکن چونکہ ایک ادیب کی تخلیقات اسکے افکار کا ہی اظہار ہوتی ہیں لہٰذا امجد کی شاعری میں قومیت، کلاسیکی رومان پسندی اور جدید دور کے تقاضوں کو روایات سے جوڑنے کی خواہش محسوس کی جاسکتی ہے۔

ستمبر انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے حوالے سے بھی کافی شاعری ایسی ہے جو اس وقت کے پاکستانی ریاستی نظریے سے مطابقت رکھتی تھی۔ مثال کے طور پر قومی ہیروز کے نام انکی نظمیں۔ اسی طرح سے اگر ضیا الحق کے گیارہ سالہ دورِ جبر وکہر میں امجد اسلام مجد جیسےخوبئ کلام رکھنے والے شاعر نے اپنی تحریر کا دائرہ گو نہایت عمدہ مگر محض رومانوی شاعری تک ہی رکھا۔

نظریاتی وابستگی یا جراتِ بغاوت سے پرے دیکھاجائے تو امجد اسلام امجد شعر و ادب کی اس روایت سے تعلق رکھتے تھے جس نے قیامِ پاکستان کے بعد پاکستانی معاشرے میں تہزیب و ثقافتی اقدار کی تشکیل دی۔ اُن کا تعلق اس عہد سے ہے جس میں پروین شاکر ، احمد فراز ، محسن نقوی جیسے ادیب ٹی وی پروگراموں اور مشاعروں کے ذریعے اردو بولنے والوں کی ذوق کی تربیت کیا کرتے تھے۔ امجد اسلام امجد کو اُن کے دوستانہ رویے اور خوش مزاجی کی وجہ سے بڑے بڑے مشاعروں کی نظامت کرنے کا موقع بھی ان کے کرئیر کے کافی ابتدائی دور میں ملا۔نئے لکھنے والوں کے لئے کٹر اور ناقدانہ جذبات رکھنے والے اردو شعرا کےدرمیان یوں جگہ بنانا ایک بڑی بات ہے۔

امجد کا پہلا شعری مجموعہ “برزخ” (1974 ) میں چھپا۔

کچھ ہی عرصہ میں وہ مشاعروں اور جوانوں کے مقبول ترین شاعر بن گئے۔ اُن کی نظموں اور غزلوں کے بے شمار شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔ انہوں نے سیاہ فام شاعروں کے اردو تراجم بھی اس دور میں کئے جب آج کل کی طرح ، سیاہ فام افراد کے حقوق کی ادبی تحریک اس قدر زور پر نہیں تھی۔

ایک دفعہ کسی نے ٹی وی اور فلم کی مشہور مصنفہ حسینہ معین سے پوچھا کہ آیا امجد اسلام امجد ایک بڑے ڈرامہ نگار ہیں یا شاعر ۔ حسینہ نے جواب دیا “امجد اسلام امجد ڈرامہ نگار سے زیادہ ایک اچھے شاعر ہیں۔“ امجد کی تخلیقات کا مطالعہ کریں تو لگتا ہے یہ بات درست ہے۔ خود امجد کی بھی خواہش تھی کہ لوگ تاریخ میں اُن کو شاعر کے طور پر یاد رکھیں۔کیونکہ اُن کے خیال میں “شاعری اصل اور خالص ہوتی ہے اور یہ میرے اندر سے خود بخود نکلتی ہے۔”امجد کے مطابق وہ کوشش کرکے شاعری نہیں کرتے تھے بلکہ یہ اُن پر وارد ہوتی تھی ۔ امجد کے مطابق شاعری مطالعے اور مشاہدے کے بعد احساسات کا اظہار اور کتھارسسز کا ذریعہ بنتی ہوتی ہے۔

فرض کرو ہم تارے ہوتے _____

امجد چونکہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے اس لئے اُن کی نظم میں عموماً ردھم اور قافیے اور منظومیت کا پاس دکھائی دیتی ہے۔ امجد کی شاعری میں ستارے ، سمندر، کا استعارا کافی کثرت سے ملتا ہے جو اُنکی سوچ کی رجائیت اور رومانویت کا اظہار ہے۔

اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی دل گیر نرم روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر تمھارے قدموں میں آگرے تو
یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا

؂ فرض کرو ہم تارے ہوتے

اور پھر اک دن

شاخِ فلک سے گرتے اور تاریک خلاؤں میں کھو جاتے

اگرچہ امجد پہ رومانویت کی کافی چھاپ ہے لیکن اُنھوں نے بہت سی شاعری ایسی بھی ہے جو رئیلزم سے عبارت ہے۔ مثال کے طور پر اُنکی شاعری “زندگی” کا بہت حقیقی نظر سے مشاہدہ کرنے کے بعد پڑھنے والے کے لئے اوپٹمسٹ اور پریکٹیکل جانچنے کی دعوت سے دیتی ہے۔ جیسے اُن کی نظم ”سیلف میڈ لوگوں کا المیہ“ اور “ایک کمرۂ امتحاں میں” کی یہ سطریں👇🏿

زندگی کے پرچے کے

سب سوال لازم ہیں ، سب سوال مشکل ہیں

بے نگاہ آنکھوں سے ، دیکھتا ہوں پرچے کو

بے خیال ہاتھوں سے

ان بُنے سے لفظوں پہ اُنگلیاں گھماتا ہوں

حاشیے لگاتا ہوں ، دائرے بناتا ہوں

اردو ادب کے استاد کی حیثیت سے بھی امجد اسلام امجد نوجوانوں اور ادب کے سٹوڈنٹس میں بے پناہ مقبول تھے ۔ بہت سے طلباء صرف امجد اسلام امجد کی زندہ دل اور دوستانہ شخصیت کی وجہ سے مشاعروں میں چلے آتے تھے۔ شعر وادب سے تعلق رکھنے والے طلباء میں شاید ہی کوئی ہو جسے امجد کی نظم “کہو مجھ سے محبت ہے“ یا غزل ”وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں“ سے شناسائی نہ ہو۔ اُنکی وفات کے بعد پاکستان میں اردوادب و ثقافت کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ختم ہوگیا ۔

(dh/bonn)

_____