پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ اُنکی پیدائش اکتیس جولائی 1885 /بنارس میں ہوئی۔ پریم چند نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز رسالہ زمانہ“ سے کیا۔ اُن کی مشہور تصانیف: سوزِ وطن، غبن، گئو دان، چوگان ِ ہستی، بازارِحسن پریم پچیسی وغیرہ ہیں۔ “کفن” اور ”عید گاہ“ جیسےعظیم افسانے ان کے اشتراکی خیالات اور بہترین حقیقت نگاری کا شاہکار ہیں۔
اُردو ادب کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں کا مشترکہ اثاثہ ہے۔ کیونکہ اس زبان میں لکھنے والے ایک ایسی متنوع ہندوستانی ثقافت (Diverse Cultural Background) سے تعلق رکھتے تھے جس کا حصہ مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی ،پارسی سبھی طرح کے افراد تھے۔ انہی لوگوں میں سے ایک بڑا نام منشی پریم چند کا بھی ہے جنہوں نے اردو اور ہندی زبان کو نہ صرف عظیم ادب دیا بلکہ انکے بولنے والوں کو قریب لانے میں فعال کردا ادا کیا۔
پریم چند کے افسانوں کی زبان نہایت سادہ اور عام بول چال کی ہے۔ اُن کے کرداروں کی گفتگو سے کسی عظیم فلسفے کا نہیں بلکہ چلتے پھرتے انسانوں کی حقیقی زندگی کے مسائل اور خصوصیات کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پریم چند ادب میں حقیتت پرستی کی تحریک سے وابستہ تھے۔ اسی لئے انہوں نے کسی افسانوی یا بورژوائی منظرنامے کے بجائے اکثر و بیشتر ہندوستان کے دیہات اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے کسان، زمیندار، طوائف، بیوہ اور مزدورعورت مرد کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔
کیونکہ پریم چند کے دور میں فن و ادب مارکسزم سے متاثر تھے اسی لئے انہوں نے بھی اپنی حقیقت پسندی کی عمارت اشتراکی خیالات پہ ہی تعمیر کی۔ لہٰذا جس طرح روسی ادیب معمولی کلرک، مزدور اور کسان کی زندگیوں پہ مبنی ادب تخلیق کرنے پہ زور دے رہے تھے اُسی طرح پریم چند نے بھی ہندوستان کے غریب مزدورعوام کے استحصال کی کہانی لکھ کر اُس کے مسائل اور حالات سے آگاہ کیا۔ ان کی کہانیاں ہندوستانی سماج میں پائے جانے والے بری روایات مثلاً استحصالی زمینداری نظام ، جہیز، کم عمری کی شادی، عورت کا جنسی استحصال، قرض اور کام چوری کی لعنت وغیرہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتی ہیں اور پڑھنے والے کو اِن سماجی بُرائیوں کے خاتمے کے لئے آواز اُٹھانے پہ مائل کرتی نظر آتی ہیں۔
پریم چند کے نزدیک ادب کا مقصد : حقیقی زندگی پہ تنقید
ہندوستان میں ترقی پسند ادیبوں کی تنظیم (Progressive Writers Association) اُنیس سو پینتیس (1935) میں قائم کی گئی جس کی صدارت پریم چند نے کی ۔اس موقع پر انہوں نے ادیبوں کو ترقی پسندانہ خیالات پہ مبنی حقیقی زندگی کی عکاسی کرنے والا ادب تخلیق کرنے پہ زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید دور میں ادب کا کام انسان کی روحانی اور اخلاقی تربیت کرنا ہے لہٰذا اچھے ادیب کو ایسا ادب تخلیق نہیں کرنا چاہیے جس کا زندگی میں کوئی “مقصد یا مصرف” نہ ہو۔ ان کے خیال میں ہندوستانی ادیب ”فسانۂ عجائب “ یا ”چندر کانتا“ جیسی رومانوی اور افسانوی داستانیں لکھ کر عوام کو حقیقی زندگی سے دور رکھتے رہے ہیں جبکہ ادیب کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حالات و واقعات کو کہانی کی شکل میں پڑھنے والوں کے سامنے پیش کرکے ان کے سماجی شعور کو بہتر کرے۔
برطانوی راج کی عیاری اور لکھنو کے نوابوں کے زوال پہ بنائی گئی ستیہ جیت رائے کی مشہور فلم “شطرنج کے کھلاڑی“ پریم چند کی ایک کہانی پہ مبنی ہے اور ہندوستانی سینیما کی اہم فلموں میں شمار ہوتی ہے
پریم چند اُردو یا ہندی کا ادیب ؟
جب پریم چند کے افسانوں اور ناولوں کی بات ہوتی ہے تو اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا انہیں اُردو کے ادیب کے طور پہ تسلیم کیا جائے یا یا ہندی کے؟ اس کا جواب جانے کے لئے اُن کی تصانیف کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونو ملکوں کے موجودہ سیاسی حالات کے پیشِ نظر کچھ لوگ اُنہیں محض ہندی یا محض اردو کا ادیب مانتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اردو ہندی کے تنازعے کو ختم کرنے کے لئے اپنا بھرہور کردار ادا کیا اور ان زبانوں کو محض ہندوں یا مسلمانوں سے جُڑے ہونے کے تصور کو ٹھکراتے ہوئے اُردو اور ہندی دونو زبانوں میں ادب لکھا۔ اسی مقصد کے لئے پریم چند نے ایک ہندوستانی سبھا کے قیام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کا اہم کام ”ہندوستانی“زبان کی ترویج تھا تاکہ اردو-ہندی کے مسلئے پرادیبوں میں ایک متقفہ لائحہ عمل بنایا جائے۔ اُن کے نزدیک اس زبان کے نام پہ فساد کو ختم کرکے دوریاں مٹانا ہندوستان کے مصنفین کی ایک بنیادی زمہ داری تھی۔
پریم نے اردو اپنی ابتدائی عمر میں ایک مدرسے کے مولوی صاحب سے سیکھی۔ اُن کی سب سے پہلی کہانی “دنیا کا سب سے انمول رتن” 1907 میں اُردو رسالہ زمانہ میں چھپی ۔ اسی زمانے میں انہوں نے “ہم خوار و ہم ثواب ” “سوزِ وطن” “روٹھی رانی ” وغیرہ بھی اردو ہی میں تحریر کیں ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ منشی پریم چند نے اپنے ادبی کیرئیر کا آغاز بلاشبہ اُردو ادب سے ہی کیا اور اردو فکشن میں حقیقت پسندی کی تحریک شروع کرنے کا سہرا انہی کے سر ہے۔ تاہم جس دور میں انہوں نے لکھا اس وقت یہ زبان ہندوستانی کہلاتی تھی۔ اور جیسا کہ پریم چند نے پروگریسو رائٹرز ایسوسی ایشن کے پہلے جلسے سے خطاب میں بھی کہا کہ ادیب کے لئے اردو یا ہندی زبان میں لکھنے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ کیا لکھ رہا ہے اُس کا اہم فرض یہ ہی کہ وہ مقصدی ادب تحریر کرے جس سے سماج کی حالت سدھارنے یا بیان کرنے کی کوئی صورت نکلتی ہو۔
My brother suggested I might like this web site.
He was totally right. This post actually made my day.
You cann’t imagine just how much time I had spent for this information!
Thanks!
Comments are closed.