امجد اسلام امجد : کلاسیکی رومانوی شاعری کا آخری ستارہ
اُمجد اس حوالے سے خوش قسمت تھے کہ جس دور میں انہوں نے اپنے تخلیقی کیرئیر کا آغاز کیا (غالباً سن 69 میں ) وہ پاکستانی ادب کا تابناک ترین عہد تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب جون ایلیا ، احمد ندیم قاسمی ، قتیل شفائی ،افتخار عارف ، شبنم شکیل، کشور ناہید،فہمیدہ ریاض ،احمد فراز ، منیر نیازی، محسن نقوی وغیرہ جیسے فصاحت و بصیرت رکھنے والے دانشور اردو شعر وادب میں بلند معیارات قائم کررہے تھے ۔ نوجوان شاعر کے طور پہ امجد اسلام امجد کی تخلیقات احمد ندیم قاسمی کے ادبی رسالے “فنون” میں شائع ہوتی رہیں۔ امجد ،احمد ندیم قاسمی کو اپنا استاد مانتے تھے قاسمی صاحب سے اُنکا قربت اور عقیدت کا تعلق رہا۔
اگر یہ کہا جائے کہ امجد اسلام امجد عوام الناس میں اپنی ڈرامہ نگاری کی وجہ سے زیادہ مقبول ہوئے تو بے جا نہ ہوگا۔پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) پہ نشر ہونے والا انکا ڈرامہ “وارث” اگرچہ ستر کے عشرے میں بنایا گیا لیکن آج تک اردو ٹی وی کے ناظرین “چوہدری حشمت “ کے کردار سے واقف ہیں ۔ تاہم امجد اسلام امجد بنیادی طور پر ایک بہترین شاعر تھے۔ اُنہوں نے ستر (70) کے قریب کتابیں لکھی جن میں برزخ، ساتواں در، فشار، ذرا پھر سے کہنا، اُس پار، کالے لوگوں کی روشن نظمیں، بارش کی آواز، میرے بھی ہیں ،کچھ خواب ، دیکھتے چلے گئے وغیرہ شامل ہیں۔
امجد اسلام امجد بطور گیت نگار :
امجد اسلام امجد کے گیت نورجہاں ، نصرت فتح علی خان، راحت فتح علی، آشا بھوسلے، حامد علی خان سے لے کر ابرار الحق اور حمیرا چنا جیسے گلوکاروں نے گائے اورنہائت مقبول ہوئے۔ اُنکے گیتوں میں
وارث (1979),” دہلیز“ اور ”سمندر“ کے بعد امجد اسلام امجد نے جو ڈرامے لکھے ان میں “دن” “رات” “فشار” “وقت” ” “انکار”حصار” شامل ہیں۔ انہوں نے جن فلموں کے لئے سکرپٹ لکھا اُن میں “جو ڈر گیا وہ مر گیا“ “سلاخیں“ اور
امجد اسلام امجد نظریاتی طور پر پاکستان کے قدامت پرست مکتبۂ فکر سے تعلق رکھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ عطا الحق قاسمی،حسن رضوی ،اشفاق احمد جیسے دائیں بازو کے دانشور اُنکے قریبی حلقۂ احباب میں شامل تھے۔ امجد کے ڈراموں میں بھی پُرانی اقدار کی ستائش، نئی نسل کی بے راہ روی، عورت کا ایک مخصوص پدر شاہی تصور اور جمہوری آزادی کے بجائے قدیم روایات اور بزرگ افراد کی طاقت (اتھارٹی) پر زور دیا جاتا ہے۔ (اگرچہ اپنے ایک اخباری کالم میں امجد اسلام امجد نے یہ وضاحت کی ہے کہ اپنی تخلیقی اور پیشہ ورانہ مقاصد کی تکمیل کے سفر میں انہیں نظریاتی وابستگی کے حوالے سے دائیں اور بائیں بازو ، دونو مکتبہ فکر کیجانب سے شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ حالانکہ وہ بذات خود کسی ایک انتہا سے جڑنے کے بجائے کسی معتدل سکول آف تھاٹ کی جستجو میں رہے، جو کہ اُنہیں پاکستانی ترقی پسندوں کی سُرخ اور مذہبیت پسندوں کی سبز سیاست کے بیچ کی کسی شاہراہ پہ لے جائے۔
تاہم امجد کے سرکاری کرئیر ، سیاسی وابستکی اور تخلیقی اظہار کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ روایت پرستی یا معتدل کنزروٹیزم کے حامی تھے۔
ممثال کے طور پہ وہ ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی کے مابین ہونے والی ترقی پسندی اور قومیت پرستی کی جنگ میں احمد ندیم قاسمی کے ساتھ رہے ۔ وہ پاکستان میں ایٹمی ٹیکنالوجی کے ماہر ڈاکٹر عبد القدیر خان کے پرستار تھے اور ان کی توصیف میں شعر بھی کہے۔ اے کیو خان ٹرسٹ کے پروگراموں میں بھی سرگرمی سے حصہ لیتے رہے۔
چونکہ اس تحریر کا مقصد امجد پہ کوئی متعصبی ٹھپہ لگانا نہیں بلکہ مراد صرف ایک ادیب کے فکری رجحان کا سراغ ہے اس لئے یہاں ہم اس تفصیل میں نہیں جائیں گے کہ ایک شاعر کے اے کیو خان یا الخدمت ٹرسٹ جیسے اداروں میں سرگرم ہونے کی وجہ سے اسکے نظریات پہ حتمی رائے قائم کی جانی چاہیے یا نہیں۔ لیکن چونکہ ایک ادیب کی تخلیقات اسکے افکار کا ہی اظہار ہوتی ہیں لہٰذا امجد کی شاعری میں قومیت، کلاسیکی رومان پسندی اور جدید دور کے تقاضوں کو روایات سے جوڑنے کی خواہش محسوس کی جاسکتی ہے۔
ستمبر انیس سو پینسٹھ کی جنگ کے حوالے سے بھی کافی شاعری ایسی ہے جو اس وقت کے پاکستانی ریاستی نظریے سے مطابقت رکھتی تھی۔ مثال کے طور پر قومی ہیروز کے نام انکی نظمیں۔ اسی طرح سے اگر ضیا الحق کے گیارہ سالہ دورِ جبر وکہر میں امجد اسلام مجد جیسےخوبئ کلام رکھنے والے شاعر نے اپنی تحریر کا دائرہ گو نہایت عمدہ مگر محض رومانوی شاعری تک ہی رکھا۔
نظریاتی وابستگی یا جراتِ بغاوت سے پرے دیکھاجائے تو امجد اسلام امجد شعر و ادب کی اس روایت سے تعلق رکھتے تھے جس نے قیامِ پاکستان کے بعد پاکستانی معاشرے میں تہزیب و ثقافتی اقدار کی تشکیل دی۔ اُن کا تعلق اس عہد سے ہے جس میں پروین شاکر ، احمد فراز ، محسن نقوی جیسے ادیب ٹی وی پروگراموں اور مشاعروں کے ذریعے اردو بولنے والوں کی ذوق کی تربیت کیا کرتے تھے۔ امجد اسلام امجد کو اُن کے دوستانہ رویے اور خوش مزاجی کی وجہ سے بڑے بڑے مشاعروں کی نظامت کرنے کا موقع بھی ان کے کرئیر کے کافی ابتدائی دور میں ملا۔نئے لکھنے والوں کے لئے کٹر اور ناقدانہ جذبات رکھنے والے اردو شعرا کےدرمیان یوں جگہ بنانا ایک بڑی بات ہے۔
امجد کا پہلا شعری مجموعہ “برزخ” (1974 ) میں چھپا۔
کچھ ہی عرصہ میں وہ مشاعروں اور جوانوں کے مقبول ترین شاعر بن گئے۔ اُن کی نظموں اور غزلوں کے بے شمار شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔ انہوں نے سیاہ فام شاعروں کے اردو تراجم بھی اس دور میں کئے جب آج کل کی طرح ، سیاہ فام افراد کے حقوق کی ادبی تحریک اس قدر زور پر نہیں تھی۔
ایک دفعہ کسی نے ٹی وی اور فلم کی مشہور مصنفہ حسینہ معین سے پوچھا کہ آیا امجد اسلام امجد ایک بڑے ڈرامہ نگار ہیں یا شاعر ۔ حسینہ نے جواب دیا “امجد اسلام امجد ڈرامہ نگار سے زیادہ ایک اچھے شاعر ہیں۔“ امجد کی تخلیقات کا مطالعہ کریں تو لگتا ہے یہ بات درست ہے۔ خود امجد کی بھی خواہش تھی کہ لوگ تاریخ میں اُن کو شاعر کے طور پر یاد رکھیں۔کیونکہ اُن کے خیال میں “شاعری اصل اور خالص ہوتی ہے اور یہ میرے اندر سے خود بخود نکلتی ہے۔”امجد کے مطابق وہ کوشش کرکے شاعری نہیں کرتے تھے بلکہ یہ اُن پر وارد ہوتی تھی ۔ امجد کے مطابق شاعری مطالعے اور مشاہدے کے بعد احساسات کا اظہار اور کتھارسسز کا ذریعہ بنتی ہوتی ہے۔
فرض کرو ہم تارے ہوتے _____
امجد چونکہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر تھے اس لئے اُن کی نظم میں عموماً ردھم اور قافیے اور منظومیت کا پاس دکھائی دیتی ہے۔ امجد کی شاعری میں ستارے ، سمندر، کا استعارا کافی کثرت سے ملتا ہے جو اُنکی سوچ کی رجائیت اور رومانویت کا اظہار ہے۔
اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی دل گیر نرم روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر تمھارے قدموں میں آگرے تو
یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا
فرض کرو ہم تارے ہوتے
اور پھر اک دن
شاخِ فلک سے گرتے اور تاریک خلاؤں میں کھو جاتے
اگرچہ امجد پہ رومانویت کی کافی چھاپ ہے لیکن اُنھوں نے بہت سی شاعری ایسی بھی ہے جو رئیلزم سے عبارت ہے۔ مثال کے طور پر اُنکی شاعری “زندگی” کا بہت حقیقی نظر سے مشاہدہ کرنے کے بعد پڑھنے والے کے لئے اوپٹمسٹ اور پریکٹیکل جانچنے کی دعوت سے دیتی ہے۔ جیسے اُن کی نظم ”سیلف میڈ لوگوں کا المیہ“ اور “ایک کمرۂ امتحاں میں” کی یہ سطریں👇🏿
زندگی کے پرچے کے
سب سوال لازم ہیں ، سب سوال مشکل ہیں
بے نگاہ آنکھوں سے ، دیکھتا ہوں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
ان بُنے سے لفظوں پہ اُنگلیاں گھماتا ہوں
حاشیے لگاتا ہوں ، دائرے بناتا ہوں
اردو ادب کے استاد کی حیثیت سے بھی امجد اسلام امجد نوجوانوں اور ادب کے سٹوڈنٹس میں بے پناہ مقبول تھے ۔ بہت سے طلباء صرف امجد اسلام امجد کی زندہ دل اور دوستانہ شخصیت کی وجہ سے مشاعروں میں چلے آتے تھے۔ شعر وادب سے تعلق رکھنے والے طلباء میں شاید ہی کوئی ہو جسے امجد کی نظم “کہو مجھ سے محبت ہے“ یا غزل ”وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں“ سے شناسائی نہ ہو۔ اُنکی وفات کے بعد پاکستان میں اردوادب و ثقافت کی تاریخ کا ایک سنہرا باب ختم ہوگیا ۔
10 فروری ، امجد اسلام امجد کا یوم وفات ہے
(dh/bonn)
_____